یہ تحریرمیرے تایا کی ہے جنھوں نے بعد از تحقیق ان معلومات کو جمع کیا.
میں ان کی اس کاوش کو کم و بیش انہی الفاظ میں آپ تک پہنچا رہا ہوں. اسے
جھمٹ قوم کی موجودہ تاریخ سمجھئے .
شجرہ جھمٹ راجپوت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دو
قرن سے زائد عرصہ پر محیط موجودہ نسل خود کو ضابطہ تحریر میں لانا جوۓ شیر
لانے کے مترادف ہے۔ جب بھی کوئی گم گشتہ عزیز راقم سے رشتہ کا تسلسل
گانٹھتا تو پھٹی آنکھوں سے ما سواۓ یقین کرنے کچھ بن نہ پڑتا۔ اس ضرورت نے
اس خلش کو جنم دیا کہ شجرہ نسب کی طرف رجوع کروں، مگر ماسواۓ حسرت کے کچھ
ہاتھ نہ آیا۔ تقریبا 30 سال قبل بزرگان برادری کا اکٹھ دیکھ کر ان کے سینہ
گزٹ کو قرطاص ابیض پہ منعکس کرنے کی سعی ناکام کی ہے، تا کہ موجودہ نسل اور
آیندہ نسل رشتہ کی حقیقت کو بھانپ سکیں۔
نسل
انسانی فکرمعاش میں جب پنجاب میں منتشر ہوئی تو گجی مار کے دو ڈاکو میر گل و
طو ر زمان ساندل بار میں آن آباد ہوۓ اور پھولے پھلے، یہ ذات کے راجپوت تھے۔
جب ساندل بار میں اسلام کی روح پھیلی تو راجپوتوں نے مسلمان ہونا شروع
کیا۔ ان کی بہت سی گوٹھیں تھیں جن میں ایک قبیلہ جھمٹ بھی تھا، جو مسلمان
ہو گیا۔راجپوتوں کے قبیلہ کے سردار نے ایک مقامی عورت "کھوکھرا "سے شادی کی
اس سے پیدا نسل کھوکھر کہلائی۔ جو کھچی کے کنارے پھیلے دور تک آباد ہو گۓ
(مطالعہ کتاب قطب) ۔ راجپوتوں کے قبیلہ جھمٹ کی کڑی سے راقم کا تسلسل ملتا
ہے۔ جھمٹ راجپوت آج کل بنگلہ جھمٹاں نزد شاہ پور ضلع سرگودھا میں مرکزی
حیثیت سے آباد ہیں۔ معاشی تنگدستی نے کاشتکاری سے ہٹ کر آباؤاجداد کو دیگر
پیشہ ہاۓ پارچہ بافی، چھیپبا زنی، گازری، درزی گری اور بے گار کاموں کو
اپنا کر شکم پروری پر مجبور کر دیا۔ اہل ثروت نے کاشتکاری اپنائی۔ جب نسل
انسانی بڑھی اور عرصئہ حیات تنگ ہوا تو زبردستوں نے زیردستوںکو
نقل مکانی پر مجبور کیا۔ جھمٹ قبیلہ کے ایک غریب سربراہ کا نام بدھو تھا
،اسکا ایک بیٹا "اسلام" اور اس کے ایک فرزند کا نام "ماہی" تھا۔ ماہی کے
دو بیٹے تھے، اسماعیل اور میاں فتح محمد۔ اسماعیل فکر معاش میں ترک سکونت
کر کے جھنگ کے ایک قصبہ رجوعہ سادات کی نزدیک آن آباد ہوا جہاں اطراف میں
نسل پھیلی۔
جبکہ
میاں فتح محمد موضع حبیب ضلع جھنگ میں جا گزیں ہوا۔ اس کی نسل سے تین
فرزند پیدا ہوۓ۔ غلام حسن، مسن اور غلام حسین۔ راجپوٹ خون ہونے کے ناطے یہ
لوگ رانا کہلاتے ہیں۔
1870
کے عشرے میں جب موضع حبیب میں نول قبیلہ کی چیرہ دستیاں حدود انسانیت سے
متصادم ہوئیں اور کسی کسب میں شکم پری غربا کے لیے ممکن نہ رہی تو من جملہ
ترک سکونت کر کے تمام قبیلہ ٹھٹہ پاتوانہ نزد جھنگ خیمہ زن ہوا۔ جہاں پر
سیال خاندان نے سرپرستی شروع کر دی۔ علم کی روشنی اور اہل علم کی صحبت نے
کچھ شعور پیدا کیا اور بزرگ جو لڑی غلام حسن سے رانا محمد بخش المعروف
"گردآور" نے ملازمت بحیثیت "بیلف" کی، اسی نسبت سے لقب گردآور مشہور ہوا۔
میاں محمد فتح کی اولاد میں میاں بڈھا سربراہ ٹھہرے، ان سے چلنے والی نسل
"بڈھے کی" کہلائی۔ 1902 کے بعد بڈھے کی لڑی نے اکثریت سے ملازمت پولیس
اختیار کی اور سب انسپکٹر کے عہدے تک بھی گۓ۔ ان میں سے بڑے سرگودھا جا کر
آباد ہوۓ۔ اور دربار سیال شریف کی نسبت سے سگ دربار سیال شریف کہلانے میں
فخر محسوس کیا۔ دوسرے بھائی نے ساہیوال میں ناطہ کیا کور وہیں کے ہو کے
رہے۔ بڈھے کی لڑی کے شرفا محلہ منشیاں والا جھنگ میں آباد و شاد ہیں، اور
آج کل رانا اللہ دتہ اورسیر انکے معتبر ہیں۔میاں فتح کی اولاد میں مسن نامی
بزرگ ہوۓ، بہت مختصر کارواں ہے۔ اس لڑی سے متعلقہ افراد آجکل بستی گھوگھہ
ضلع جھنگ میں آباد ہیں۔
تیسرے
فرزند حسین کے فرزند جہانا، شہامند یا شیخ احمد اور محمد بخش تھے۔ آگے
انکی نسبت جہاں کے، شہامند کے اور محمد بخش (گرداور) کے اور مراد کے کہلاتے
ہیں۔ 1902 میں گرداور کے گوٹھ باتوانہ میں فرزند ارجمند پیدا ہوا، نام
غلام محمد رکھا۔ ابتدائی تعلیم جھنگ سٹی میں تھمن شاہ کے مکتب سے حاصل کی،
یہاں پر قسمت نے پانسا پلٹا اور تعلیم کی بہرہ مندی سے اکثریت ہم عصر میٹرک
تک تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گۓ۔ شہامند کی لڑی سے رانا عطا محمد اور
رانا رنگ الہئی نامور ہیڈماسٹر ہوۓ۔ گرداور کی اولاد میں غلام محمد اعلی
تعلیم کے لیے طب مویشیاں لاہور وٹرنری کالج میں داخل ہوۓ اور بطور ڈاکٹر
سرکاری ملازمت اختیار کی۔ ترقی کا نصییبہ جاگا تو اعلی عہدہ پر ترقی پا کر
ڈپٹی ڈایریکٹر ہوے اور ڈپٹی کہلاۓ۔ غریب پروری، ادائیگی زکوہ اور اقربا
پروری کے باعث علاقہ میں اور برادری میں ہر دل عزیز ہوۓ۔ اور ڈپٹی کے عہدہ
سے ریٹائر ہوۓ۔ ملازمت سے ریٹائر ہوتے ہی حیات نے یاوری نہ کی اور
ریٹائرمنٹ کے آٹھ ماہ بعد 1958 میں خالق حقیقی سے جا ملے جبکہ بڑا بیٹا
ابھی زیر تعلیم تھا۔
راقم ڈپٹی صاحب کا بڑا بیٹا ہے۔ اور پدری پیشہ اپناۓ ہوۓ ڈپٹی کے عہدہ سے حال ہی میں ریٹائر ہوا ہے۔
اکثریت
برادری نے مختلف اطراف میں رہائش اختیار کر رکھی ہے۔ گرداور کے چھوٹے بیٹے
نور محمد اور انکے فرزند ارجمند رانا محمد اشفاق اعلی ترین عہدہ پر زرعی
یونیورسٹی فیصل آباد میں تعینات جبکہ رانا زاہد محمد کے صاحبزادگان معلمی
اپناۓ ہوۓ نہائت خوشحال ہیں۔
دیگر تمام برادری سرگودھا، ساہیوال، جھنگ سٹی، ملتان، وہاڑی، فیصل آباد اور لاھور میں اپنے اپنے حال میں زندگی کی طرف رواں دواں ہیں۔
آخر میں استدعا ہے کہ اس حقیر کاوش پر قارئین کرام راقم کے لیے دعاۓ صحت فرمائیں۔
خیر اندیش
ڈاکٹر رانا محمدجاوید اقبال ---
( یہ تحریر انکی وفات
سے تین ماہ قبل کی ہے۔)
---
اس
دستاویز کو جدید عہد کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کا اہم کام کرتے ہوۓ مجھے
نہایت خوشی ہوئی، امید ہے اس میں مزید اضافہ اور تدوین جاری رہے تا کہ
ہمارا ورثہ اگلے وقتوں تک پہنچتا رہے۔
محمّد جنید راشد
محمّد جنید راشد